Kitab Ki Tareekh

Kitab Ki Tareekh

Daku ka waar

Daku ka waar

Baby se BB Tak

PKR2,790.00
Availability: In stock
SKU
461-1
بے بی سے بی بی تک
ایک تصویری تاریخ ۔
بینظیر بھٹو کے سیاسی سفر کی لمحہ بہ لمحہ کہانی
معروف لیجنڈری پریس فوٹو گرافر زاہد حسین کے کیمرہ قلم سے
پوری کتاب نفیس آرٹ پیپر پر شائع کی گئی ہے
ملجد ۔ لیمینیٹڈ دیدہ زیب سر ورق ۔ جدید ترین ڈیجیٹل طباعت
قیمت 1890 روپے ۔۔ پیشگی ادائیگی پر صرف 1647 روپے میں اور فری ہوم ڈیلیوری
"زاہد! تم میری کتاب کیوں نہیں چھاپتے۔"
یہ فقرہ شہید بینظیر بھٹو نے مجھے اس وقت کہا جب وہ مئی 1986 میں کراچی پریس کلب میں میری بنائی ہوئی ان کے تاریخی استقبال کی تصاویر کی نمائش کے افتتاح کے بعد تصاویر دیکھ ری تھیں ۔ اس دن وہ بہت خوش تھیں اور صحافیوں کا ایک مجمع ان کے گرد جمع تھا ۔ کلب کے اطراف بلا مبالغہ کئی ہزار پارٹی کارکن جمع تھے جو کلب کے اندر آنا چاہتے تھے مگر ان ہی کے رضا کاروں نے انہیں روک رکھا تھا اس کے باوجود کلب کی ایک دیوار گر گئی تھی ۔ میں نے بی بی سے کہا کہ ضرور چھاپوں گا ۔ (اب ان کی پاکستان آمد سے میں نے انہیں BB کہنا شروع کر دیا تھا کیونکہ اس کے ساتھ آنے والے غیر ملکی صحافی اسے BB کہتے تھے مگر ہم نے اسے اردو کا بی بی بنا لیا ) انہوں نے مسکرا کر کہا تھا کہ مجھے انتظار رہے گا ۔ آہ ! بی بی کی زندگی میں وہ دن نہیں آیا ۔ ایک فوٹو جرنلسٹ کی مصروف زندگی نے اتنا وقت ہی نہیں دیا کہ پرانے نیگیٹیوز نکال کر اسکین کرتا رہتا ۔ اور غیرملکی نیوز ایجنسیوں کے لئے کام کرتے ہوئے وقت نکالنا تقریباً نا ممکن ہی تھا ، انہی کا کام ختم نہیں ہوتا تھاجو اپنا کوئی کام کرتا ۔ وقت گذرتا گیا ۔ بی بی کی شادی ہوئی۔ وہ دو بار ملک کی وزیر اعظم بنیں ۔ ان کو اپنی پارٹی کے منشور یا اور دستاویزات کے لئے جو تصاویر چاہیئے ہوتی تھیں وہ منگوا لیا کرتی تھی مگر میں ان کی کتاب پر کوئی کام نہ کر سکا ۔ وہ 1999 میں سیف الرحمٰن کے احتساب بیورو کے بنائے گئے جھوٹے مقدمات کے باعث ایک بار پھر جلاوطن ہو گئیں ۔ اس بار وطن واپسی سے پہلے 2007 میں انہوں نے اپنے استقبال کے لیے بننے والے ہورڈنگز، بل بورڈز، پوسٹرز وغیرہ کے لیے مجھ سے تصاویر مانگیں جو میں نے ان کی ہدایت پرایک DVD پر بلاول ہاؤس بھیج دیں ۔ پورے ملک میں یہ تصاویر پینا فلکس وغیرہ پر پھیل گئیں اور جب بی بی ملک بھر میں جلسوں، ریلیوں سے خطاب کے بعد کراچی آئیں تو ایک پریس کانفرنس سے قبل گپ شپ میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ زاہد ! تمہاری ایک نمائش اور ہو گئی ہے جس پر میں نے جواب دیا کہ جی ہاں یہ عوامی نمائش ہے ۔ اس وقت مجھے بی بی کی کتاب کی فرمائش یاد آئی تو میں نے کہا کہ اب آپ کی کتاب کا مواد اور بہتر ہو گیا ہے اس پر انہوں نے کہا کہ مجھے انتطار رہے گا۔ کچھ ہی دنوں بعد وہ ہم سے جدا ہو گئیں ۔ ان کی شہادت کی کوریج کرتے ہوئے میں خود کلامی میں کہہ رہا تھا کہ بی بی میں آپ کا مقروض ہوں ۔ میں آپ سے دعدہ نہ نبھا سکا۔مگر میں یہ دعدہ پورا ضرور کروں گا ۔ رائٹرز نیوز ایجنسی سے ریٹائرمنٹ کے بعد جنگ گروپ نے گھیر لیا اور پورے گروپ کا فوٹو ایڈیٹر بنا دیا ۔ 2013 میں خرابیِ صحت پر جنگ گروپ چھوڑ دیا اور کئی عشروں سے تمباکو نوشی نے کام دکھا دیا ۔ پانچ سال سے زیادہ مکمل آرام اور ڈاکٹروں کی ہدایات پر مکمل عمل نے اتنا کام کر دیا کہ اب سینے کی حالت بہتر ہے مگر چلنے پھرنے میں سانس پھولتی ہے اس لئے کہیں آتا جاتا نہیں ہوں اور گھر پر ہی ہوتا ہوں ۔ اس کا البتہ یہ فائدہ ہوا کہ کچھ نہ کچھ لکھ کر فیس بک پر ڈالتا رہا اور بیٹھے بیٹھے ڈبوں میں پڑے نیگیٹیوز کے لفافوں کو خراب حالت میں پائے جانے کے بعد نئے لفافوں میں منتقل کرنا شروع کیا اور اس کے ساتھ ہی ان کی اسکیننگ بھی شروع کر دی ۔ اٹھارہ سے بیس فی صد نیگیٹیوز گل سڑ کر خراب ہو گئے ہیں جس کا مجھے بہت دکھ ہے کیونکہ یہ سب پاکستان کی تاریخ ہے جو میرے ہاتھوں تصویری شکل میں موجود ہے ۔ اس میں سیاست کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے ۔ اس میں کرکٹ، ہاکی، اسکواش اور دیگر کھیلوں کے علاوہ اہم واقعات، زلزلے، حادثے، لسانی، فرقہ وارانہ اور سیاسی حالات و واقعات کی عکاسی بھی ہے اس میں افغانستان کی جنگ، طالبان کا عروج اور دیگر واقعات ہیں ان میں 1970 کے حالات، ہنگامے اور دیگر واقعات اور 1977 میں سیاسی جنگ اور جنرل ضیا کا مارشل لا وغیرہ سب محفوظ ہیں ۔ آج کل میں یہی کچھ اسکین کر رہا ہوں اور اپنی یادداشتوں کے سہارے ان کے کیپشن وغیرہ بھی تصویر میں جڑتا جا رہا ہوں تاکہ یہ سب کچھ محفوظ ہو سکے ۔ یہ سب کچھ میں تن تنہا اور بغیر کسی کی مالی مدد کے کر رہا ہوں ۔ پچھلے سال میرا اسکینر خراب ہو گیا ، نیا تو اب دس لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے اور یہاں تو ملتا بھی نہیں ہے ۔ اسے ایک دوست کے ہاتھ دستی طور پر امریکہ بھجوایا اور مرمت پر چار سو ڈالر لگے جو میں نے ادا کر دیئے اور اسکیننگ کا کام پانچ ماہ بند رہنے کے بعد دوبارہ شروع ہو گیا ۔ ان پانچ ماہ میں میں نے بی بی پر لکھنا شروع کر دیا تھا جو اب جا کر مکمل ہوا ۔ آخر بی بی سے کیا گیا وعدہ پورا ہوا۔ یہ ایک کتاب نہیں ہے بلکہ ایک حصہ ہے جو بے بی کی 1977 میں سیاست میں آمد سے ان کی پہلی جلا وطنی تک ہے ۔ اب دوسرے حصے پر کام کر رہا ہوں جو ان کی 1986 میں لاہور آمد اور تاریخی استقبال سے ان کی شادی، دو دفعہ انتخابات جیت کر وزیر اعظم بننے اور پھر ۱۹۹۹ میں سیف الرحمٰن کے جھوٹے کیسوں کے باعث دوسری جلا وطنی تک ہو گی اور تیسرا حصہ ان کی 2007 میں آمد، جلوس پر حملہ سے لے کرمشرف کی ایمرجنسی کےخلاف مزاحمت، انتخابی جلسوں اور شہادت اور ان کی تدفین تک ہو گی ۔ کوشش کروں گا کہ بے بی سے کیا گیا وعدہ وفا ہو ۔ اس کتاب کی ضرورت اس وقت اور بڑھ گئی جب پاکستان میں اخبارات کےساتھ ساتھ نیوز چینلز کا آغاز ہوا ۔ اس دوران صحافت کے نئے دور کا آغاز ہوا جب غیر تصدیق شدہ خبریں نیوز چینلز کی ہیڈ لائنز بننا شروع ہو گئیں ۔ اس صحافت نےخبروں میں استعمال ہونے والی دستاویزات کو بغیر تصدیق کے پیش کرنا شروع کیا ۔ چونکہ درجنوں چینلز کے مابین بریکنگ نیوز کے نام پر مقابلہ شروع ہو گیا اس لئے اس میں مصدقہ خبروں کا معیار بری طرح متاثر ہوا ۔ سیاسی پارٹیوں کی طرف سے چینلز کو اشتہارات کی رشوت نے کام اور بگاڑ دیا اور یک طرفہ خبریں نشر کرنے کا رجحان بڑھا۔ اس میں سرکاری پارٹی کی بالا دستی ہوئی اور اپوزیشن پارٹیوں کے نکتہ نظر کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں اپوزیشن کے رہنماؤں پر سرکاری پارٹی کی طرف سے جھوٹے مقدمات بنائے جانے اور کردار کشی کا سلسلہ زور پکڑ گیا ۔ سیاست دانوں کے ماضی سے متعلق جھوٹی خبریں چلوائی جانے لگیں۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو ، انکے شوہر آصف علی زرداری، بیگم بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے غلط خبریں چلانا ایک ٹرینڈ سا بن گیا ۔ میں نے محسوس کیا کہ نمبر ون چینل بننے کی لڑائی میں ہماری تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے ۔ یہیں پر مجھے احساس ہوا کہ کم از کم بے نظیر بھٹو پر ایک کتاب تو لکھ ہی دی جائے تاکہ نوجوان نسل کو بی بی شہید کی جمہوریت کے لئے کی گئی جدوجہد سے روشناس کرایا جائے اور تحریر کے ساتھ ساتھ تصویر کے ملاپ سے تاریخ کو مسخ کرنے والوں کو بے نقاب کیا جا سکے۔یہ کتاب اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے ۔
یہاں کچھ قارئین کے ذہن میں یہ خیال آیا ہو گا کہ میرے کئی عشروں کے فوٹوجرنلزم کے دوران تو کئی اور نامور سیاست دان موجود تھے مگر میں نے صرف ایک بھٹو فیملی ہی کو کیوں چنا۔ اس کا جواب بالکل آسان سا ہے کہ میں کالج لائف سے ہی ذوالفقار علی بھٹو کا فین تھا اور پھر مجھے ان کے اخبار روزنامہ مساوات میں کام کرنے اور ان کے جلسے جلوسوں اور دیگر سرگرمیوں کوانتہائی قریب سے کور کرنے کا موقع ملا۔ کوریج کا یہ سلسہ بھٹو سے شروع ہو کر بیگم بھٹو، بے نظیر بھٹو اور کچھ ( مرتضیٰ بھٹو ) تک چلا مگر میں نے پہلی کتاب بے نظیر پر لکھنے کا فیصلہ کیا اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاست دانوں کے بارے میں بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں جن میں اکثریت مرد سیاست دانوں کے بارے میں ہیں ۔ خواتین سیاست دانوں پر بہت کم کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ بے نظیر بھٹو چونکہ ایک بڑے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی سیاست دان بھی تھیں ۔ لوگ انہیں دختر پاکستان بھی کہتے تھے جبکہ ہمارے ساتھی انور شاہد کے مطابق عالمی سیاست میں وہ اپنے والد کی طرح مقبول ہو کر دختر جہان بھی ہو چکی تھیں مگر میری ان کے بارے میں کتاب لکھنے کی وجہ ان کے انتہائی قریب رہ کر ان کی سیاسی سرگرمیوں کو تصویری شکل میں محفوظ کرنا رہا ہے ۔شاید میں پہلا فوٹو جرنلسٹ ہوں جس نے کسی خاتون سیاست دان کو انتہائی قریب سے تین عشروں تک کور کیا ہواور ان پر کتاب بھی لکھی ہو۔
مصنف: زاہد حسین
۔
More Information
Author Press Photographer Zahid Hussain
Publisher: Atlantis Publications
Binding 0
ISBN: 978969601489
Write Your Own Review
You're reviewing: Baby se BB Tak
Your Rating